تحریر: آصف منور
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30کروڑ افراد جسمانی طور پر معذور ہیں،جن میں سے 80فیصد کا تعلق ترقی پذیرممالک سے ہے، اوراقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی دس فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے اورایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ80 لاکھ افراد جسمانی، ذہنی،نابی، بولنے اور سنے سے معذور ہیں۔
بیشتر دفاتر،گھروں،عوامی مقامات،تفریحی مقامات،عمارتوں،پارکوں کو قومی اور بین القوامی قوانین کے تحت نہیں بنایا گیا،کرپشن اور بدعنوانیوں کی وجہ سے عمارتوں کا نقشہ حقیقی نہیں بلکہ صرف کاغذوں کی حد تک پاس ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ افراد باہم معذور سے تعلق رکھنے والے افراد کےلئے شدید مشکلات ہیں۔ گھروں کے واش رومز، ٹوٹیاں، کچن، رومز اس خطرہ کو مد نظر رکھ کرنہیں بنائے جاتے کہ معذوری کسی بھی وقت ہوسکتی ہے ، یہ باتیں پہلے سے منصوبہ سازی میں نہیں رکھی جاتیں اور اگر کوئی ایسی بات کردے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھتا ہے۔ہر سال حادثاتی اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے مختلف نوعیت کی معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ایک ایسی ناگہانی آفت ہے جس کی پاکستان میں کوئی منصوبہ سازی نہیں کی گئی جوکہ حادثات اور بیماری کی صورت میں ہوتی ہے۔
پاکستان کے قوانین میں معلومات تک رسائی کا قانون ایک بہترین قانون ہے جس کے ذریعے نہ صرف مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ مسائل کے حل کے لہے منعظم اور مربوط کوشش کی جا سکتی ہے بہت سارے شہری صرف سوال کرتے ہیں لیکن ان کا جواب نہیں مانگتے یہ قانون شہریوں کو سوال کرنے کا حق دیتا ہے اور حکومت کو جوابدہی کا پابند بناتا ہے۔پاکستان کا ہر شہری سوال پوچھ سکتا ہے چاہے اس کا مذہب،رنگ،نسل،جنس کچھ بھی ہو شہری خواندہ ہو یا ناخواندہ اس پالیسی اور قانون کے تحت سوال کرسکتا ہے۔
راقم نے گزشتہ ماہ نادرا ڈیپارٹمنٹ جھنگ سے سوال پوچھا لیکن بروقت معلومات فراہم نہ کی گئیں پھر اس سے متعلق پاکستان انفارمیشن کمشنر اسلام آباد کو شکایت درج کروائی گئی تو کچھ ہی دنوں میں مطلوبہ معلومات فراہم کردی گئیں جس پر میں نادرا ڈیپارٹمنٹ اور خصوصاْ پاکستان انفارمیشن کمشنر کا بےحد مشکور ہوں۔
موصول ہونے والی معلومات میں بتایا گیا کہ پچھلے اڑھائی سالوں میں ضلع بھر میں افراد باہم معذوری سے تعلق رکھنے والے کل 6ہزار 9سو 88افراد نے شناختی کارڈ بنوائے بصارت سے محروم کل افراد کی تعداد 398ہے جن میں 288مرد،110خواتین شامل ہیں جبکہ قوت سماعت سے محروم افراد کی کل تعداد 440ہےجن میں306مرد،134خواتین شامل ہیں جبکہ ذہنی معذور افراد کی کل تعداد 204ہے جن میں123مرد،81خواتین شامل ہیں۔
جسمانی معذور افراد کی کل تعداد 5ہزار9سو 46ہے جن میں 4ہزار296 مرد اور 1650خواتین شامل ہیں۔حکومت پاکستان کی طرف سے احکامات جاری کئے گئے تھے کہ خواجہ سراء کمیونٹی کے شناختی کارڈز بنائے جائیں جس پر ضلع کی سطح پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی لیکن ان اڑھائی سالوں میں صرف تین عدد کارڈ بنائے جانا سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ ان سالوں میں جسمانی معذور افراد کی تعداد 5ہزار 946بتائی گئی ہے۔
ضلع جھنگ میں موجودکسی بھی نادرا ڈیپارٹمنٹ میں عام شہریوں کےلئے بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں ہےجبکہ افراد باہم معذوری سے تعلق رکھنے والے افراد کےلئے ایک خاص پیمائش سے بنائے گئے بیت الخلاء نادرا سمیت کسی بھی سرکاری ادارہ میں موجود نہیں ہے۔ڈپٹی کمشنر آفس جھنگ میں ایک سرکاری بیت الخلاء عرصہ دراز سے ڈی سی عملہ کے قبضہ میں ہے جہاں پر معذور افرد کی بجائے سرکری عملہ نے تالے لگا رکھے ہیں پبلک مقامات پر معذور افراد کےلئے سہولیات کا فقدان ہے۔
وہیل چیئر یوزر آصف رضا کچھی جوکہ خود ایک۔جسمانی معذور ہیں نے ایک گفتگو کے دوران بتایا کہ ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی وہیل چیئر یوزر جنرل پوسٹ آفس،نادرا آفس اور ڈپٹی کمشنر آفس تک پہنچ نہیں سکتا اور اگر وہ ان اداروں تک پہنچ بھی جائیں تو معذور افراد کےلئے بیت الخلاء کی سہولت موجود ہی نہیں ہے جبکہ ڈی سی آفس میں سہولت موجود ہے لیکن وہاں پر سرکاری عملہ نے عرصہ دراز سے قبضہ کیا ہوا ہے۔
انہوں نے خود ایک مدد گار کے ذریعے ان اداروں کا دورہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ جب وہ ایران میں مقدس زیارات کا وزٹ کرنے گئے تو وہاں پر معذور افراد کےلئے دی جانے والی سہولیات دیکھیں تو وہ دنگ رہ گئے انہوں نے کہا کہ ڈس ایبل کسی بھی کام میں رکاوٹ کا نام ہے اگر اسے ان ایبل کرنا ہے تو رکاوٹوں کو ختم کرکے تمام سہولیات فراہم کردی جائیں تو معذور افراد کےلئے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معذور افراد کو ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسے قابل نہیں سمجھا جاتا،معاشرے کا رویہ ناقابل برداشت ہوتا ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پاکستان معذور افراد کو فعال شہری بنانے کےلئے کوشاں ہے لیکن انکو بھیک نہیں بلکہ اس قابل بنایا جائے کہ معذور افراد احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ ریمپ اور بیت الخلاء کی سہولت ہر ادارہ میں ہونی چاہئے۔حکومت کو ان تمام کمزور طبقات کے مسائل نچلی سطح پر حل کرنے کےلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔