پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنانے کے سکینڈل میں ملوث تین ملزمان کی عمر قید کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے بری کر دیا ہے۔
بدھ کو لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے تین ملزمان کی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس شہرام سرور کی سربراہی میں دو رکنی عدالتی بینچ نے تینوں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کو منظور کر لیا۔
ملزمان حسیم عامر، علیم آصف اور وسیم سندھی کو انسداد دہشت گردی نے جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ملزمان کو جرمانے کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔
درخواست گزار ملزمان کی جانب سے ایڈووکیٹ عابد حیسن کھچی نے دلائل دیے۔
ملزمان کے خلاف تھانہ گنڈاسنگھ والہ قصور نے 2015 میں درج کیا تھا۔
قصور ویڈیو سکینڈل 2015 میں سامنے آیا تھا، جب قصور کے گاؤں حسین خان والا میں سینکڑوں بچوں سے بدفعلی کا شور اٹھا۔
اس سے قبل بھی بدسلوکی کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں اور اسی گاؤں کے ایک خاندان پر 284 لڑکوں سے بد فعلی کا الزام لگایا گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ پر اس سکینڈل کو منظرعام پر لایا گیا جس کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم کے حکم پر ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش کی سربراہی میں 5 رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے واقعے کی تحقیقات کیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے کم از کم 20 بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی تصدیق کی۔ ملزم حسیم عامر کو ایک اور ملزم فیضان مجید کے ساتھ ایک الگ مقدمے میں بھی عمرقید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔