سندھ میں ہندوؤں کی شادیوں کا باضابطہ قانون بن چکا ہے جس کے تحت پنڈت بھی رجسٹرڈ ہوں گےاور رجسٹرڈ پنڈت ہی میرج سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
ء 2023کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں 41 لاکھ سے زائد ہندو آبادی ہے، تاہم پاکستان ہندو کونسل کا دعویٰ ہے کہ ہندو کمیونٹی 50 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔
صوبے میں ہندوؤں کی شادی پر سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018ء منظور ہو چکا ہے مگر ہندو کمیونٹی کی اکثریت اور پنڈت سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز اس امر سے لاعلم ہیں۔
دو سال بعد اس قانون میں ترمیم کی گئی اورسندھ ہندو میرج ترمیمی ایکٹ 2018ء وجود میں آیا جو ایک مکمل عائلی قانون ہے جس کے رولز بھی بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے خاص طور پر سندھ میں آباد ہندو کمیونٹی کی نہ تو شادیاں رجسٹر ہوتی تھیں، نہ ہیں انہیں قانونی تحفظ حاصل تھا۔
“اس قانون کے مطابق 45 روز میں ہندو جوڑے کی شادی رجسٹرڈ کروانا لازمی ہے۔ یہ قانون بننے سے قبل ہونے والی شادیاں بھی اسی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں گی۔”
پنڈت کی رجسٹریشن یونین کونسل کی سطح پر ہو گی۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو پنڈتوں کی رجسٹریشن کرنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ ہر یونین کونسل میں ہندو آبادی کے حساب سے ایک یا زیادہ پنڈت رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں جومیرج سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018ء سے ہندو عورتوں کو اور بھی کئی فائدے حاصل ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر اس قانون سے ہندو برادریوں میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام ممکن ہے کیوں کہ اس کے مطابق شادی کے لیے ہندو لڑکی کی کم ازم کم عمر 18برس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
“سندھ میں رہنے والی ہندو عورتوں کو پہلی بار دوسری شادی کا حق دیا گیا ہے۔ ہندو عورت کو اپنے شوہر سے خلع لینے کا حق بھہ حاصل ہو گیا ہے۔